میں نے ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ
اگر اس بات کو سامنے رکھتےہوئے دیکھیں تو موجودہ دور کا ہر شخص ہی خواہشات کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ ہر ایک کے سر پر خواہشات کابھوت سوار ہےجس کی وجہ سے وہ ہر طریقہ آزما رہا ہے۔کہیں خواہشات کی خاطر چوری تو کہیں رشوت سے کام لے رہا ہے۔حتی کہ دوسروںکا حق چھیننےسے بھی باز نہیں آرہا۔فرینکلن نے کیا خوب کہا ہے
جہاں تک بات ضروریات کی ہے تو ضروریات اورخواہشات میں واضح فرق ہے۔کپڑے پہننا،کھانا کھانا اور سواری استعمال کرنا ضروریات ہیں۔مگرنت نئے فیشن کے مطابق پہننا،اچھا کھانا پینااور نئی ماڈل کی گاڑی کے علاوہ کوئی اور استعمال نہ کرنا خواہشات ہیں۔ایک بات اورکہ
مشہور مقولہ ہے
ارے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خواہش ایجاد کی ماں ہوتی تو کیا ہوتا؟ہوتا یہ کہ
اپنی زندگی کو ضروریات تک محدود رکھو اور خواہشات سے پرہیز کرو کیونکہ ضروریات فقیر کی بھی پوری ہوتی ہیں اور خواہشات بادشاہ کی بھی ادھوری ر ہ جاتی ہیں۔
اگر اس بات کو سامنے رکھتےہوئے دیکھیں تو موجودہ دور کا ہر شخص ہی خواہشات کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ ہر ایک کے سر پر خواہشات کابھوت سوار ہےجس کی وجہ سے وہ ہر طریقہ آزما رہا ہے۔کہیں خواہشات کی خاطر چوری تو کہیں رشوت سے کام لے رہا ہے۔حتی کہ دوسروںکا حق چھیننےسے بھی باز نہیں آرہا۔فرینکلن نے کیا خوب کہا ہے
اپنی پہلی خواہش کو دبانا ساری خواہشات کو پورا کرنے کی نسبت بہت آسان ہے۔
جہاں تک بات ضروریات کی ہے تو ضروریات اورخواہشات میں واضح فرق ہے۔کپڑے پہننا،کھانا کھانا اور سواری استعمال کرنا ضروریات ہیں۔مگرنت نئے فیشن کے مطابق پہننا،اچھا کھانا پینااور نئی ماڈل کی گاڑی کے علاوہ کوئی اور استعمال نہ کرنا خواہشات ہیں۔ایک بات اورکہ
ہر خواہش ضرورت نہیں ہوتی مگر ہر ضرورت خواہش ہوتی ہے۔
مشہور مقولہ ہے
ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔انسان کو جیسے جیسے جس جس چیز کی ضرورت پڑی وہ اپنی عقل کو استعمال کرکے وہ ایجاد کرتا گیا۔حفاظت کے لئے گھر بنا ڈالا،جسم کو ڈھاپنے کے لئے کپڑےاور اتنی ترقی کی کہ دنیا کے ایک کونے میں بیٹھ کر دوسرے کونےکا حال جاننے لگا۔
ارے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر خواہش ایجاد کی ماں ہوتی تو کیا ہوتا؟ہوتا یہ کہ
خواہش ایجاد کی سوتیلی ماں ہوتی۔
:) بہت خوب
ReplyDeleteخواہش ایجاد کی سوتیلی ماں ہوتی
حمیرا کنول ۔۔۔ آپ کے بلاگ پر آ کر بہت اچھا لگا ۔۔مجھے یہ نام دیکھا دیکھا سا لگ رہا ہے ۔۔جہاں تک خواہشات کا سوال ہے ۔ یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے ۔اگر کم سوچو، تو ذیادہ بہتر ہے ۔ ہاں دوسروں کے پاس ہے میرے پاس کیوں نہیں اور پھر سوچتے چلے جاو ۔ تو حاصل؛کچھ نہیں ۔ بس یہ سوچ کر کہ اللہ نے میرے حصے میں جتنا لکھا ہے وہ مجھے ملے گا ۔ زندگی پرسکون ہو گی
ReplyDeleteGood
ReplyDeleteشکریہ
Delete